Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

ان دونوں نے احتیاطاً ٹیکسی لی اور بڑی بڑی شالیں لپیٹے اور کچھ حصہ چہرے پر ڈالے وہ راحیل کے فلیٹ سے کچھ دور اتر گئی تھیں۔ عادلہ اور عائزہ شہر کے قدیم اور کنجسٹیڈ ایریا کی تنگ و تاریک گلیوں سے گزرتی ہوئیں عجیب نظروں سے ان ٹوٹی پھوٹی خستہ حال عمارتوں کو دیکھ رہی تھیں  جن میں ڈھیروں لوگ آباد تھے اور عمارتیں تھیں کسی ضعیف العمر بزرگ کی مانند اس حد تک خمیدہ ہو گئی تھیں کہ محسوس ہوتا تھا ہوا کے تیز جھونکوں کا بوجھ بھی نہ سہار پائیں گی۔

”آخ تھو… کس غلاظت کے ڈھیر میں لے آئی ہو مجھے؟“

”عادلہ ان تنگ گلیوں میں جا بجا بکھرا کچرا  ٹوٹی پھوٹی سیوریج لائنز سے رستا پانی جو جگہ جگہ جمع ہو کر بدبو و جراثیم پھیلا رہا تھا اور اس سے اٹھتے تعفن سے سانس لینا محال ہو رہا تھا جس میں مکھی اور مچھروں کی بہتات تھی۔
(جاری ہے)

رنگ و روغن اور پلسٹر سے عاری دیواروں پر چسپاں پان و گٹکے کی پچکاریوں سے شاید رنگ و روغن کا کام لینے کی کوشش کی گئی تھی۔

حبس  گھٹن  گندگی اور تاریکی وہ جتنا آگے بڑھ رہی تھیں ان کی کیفیات میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ عائزہ تو گویا کسی کشش کے باعث وہاں کھینچی جا رہی تھی  اسے نہ بدبو کا احساس تھا  نہ ہی وہاں سے گزرتے لوگوں کی پرواہ جو ان کو دیکھ رہے تھے۔

”سنو! راحیل نے تمہیں اپنے گھر میں بلایا ہے یا اپنی قبر میں؟“ وہ سخت لہجے میں گویا ہوئی تھی۔

”کیا بکواس کر رہی ہو؟ زبان چلانے سے پہلے کچھ سوچ بھی لیا کرو۔“ عائزہ کو تو گویا کسی نے کند چھری سے ذبح کر ڈالا ہو۔

”یہ جگہ انسانوں کے رہنے کے قابل لگ رہی ہے تمہیں؟“

”یہ لوگ تمہیں حیوان نظر آ رہے ہیں؟ غریب ہیں مگر انسان ہیں۔“

”غریب ہیں مگر کوئی اتنا بھی غریب نہیں ہوتا کہ اپنے گھر اور باہر کی صفائی نہ رکھ سکے  ان جگہوں کا حال دیکھ رہی ہو تم اگر یہاں کے سارے رہائشی اپنے گھر کے آگے کی ہی صفائی رکھیں تو چمک اٹھے گا یہ علاقہ۔

”اوہو  تمہیں بڑی فکر ہو رہی ہے اس علاقے کی؟ فیوچر میں اسی جگہ میں رہائش کا ارادہ ہے؟“ وہ اپنے مخصوص کاٹ دار لہجے میں گویا ہوئی۔

”اللہ نہ کرے جو میرے ایسے نصیب پھوٹیں  میں تو سوچ رہی ہوں وہ راحیل یہاں کس طرح رہتا ہے؟“

”رہ رہا ہے مجبوری میں بے چارہ! کسی وجہ سے اس کو اپنا فلیٹ چھوڑنا پڑا ہے اس لئے وہ یہاں کسی دوست کے پاس رہ رہا ہے۔

”مجبوری… اس کو بھلا کیا مجبوری ہو سکتی ہے؟ ایویں تمہیں بے وقوف بنا رہا ہوگا اور تم اس کی باتوں میں آ جاتی ہو۔“ عائزہ اس کو جواب دینے کے بجائے ایک ایسی عمارت کے آگے آکر رک گئی تھی جو شاید اس علاقے کی سب سے خستہ حال عمارت تھی۔

”آ جاؤ عادلہ! یہی بلڈنگ ہے راحیل نے جو نشانیاں بتائی تھیں وہ میں نے دیکھ لی ہیں وہ سیکنڈ فلور پر رہتا ہے۔

”نشانیاں… ہا ہا ہا… بے چاری بلڈنگ اپنا ایڈریس تو کھو چکی ہے اب تو واقعی نشانیوں سے ہی اندازہ ہوتا ہے کبھی عمارت تھی۔“ عادلہ بے ساخستہ ہنسنے لگی تھیں۔

”ایک تو تم جگہ دیکھتی ہو نہ محلہ اور کھی کھی شروع کر دیتی ہو  چلو آؤ میرے ساتھ ہمیں اوپر جانا ہے۔“

وہ اسے گھور کر بولی تھی اور آگے بڑھ گئی تھی سو اس کی تقلید عادلہ کو بھی کرنی پڑی تھی بہت چھوٹی چھوٹی سی سیڑھیاں تھیں جو ٹوٹ پھوٹ کر شکار تھیں  وہاں روشنی بھی ناکافی تھی ان کو بہت سنبھل سنبھل کر چلنا پڑ رہا تھا۔

ان ہی پتھروں پر چل کر اگر آسکو تو آؤ

میرے گھر کے راستے میں کہیں کہکشاں نہیں ہے

عائزہ کا بار بار پاؤں سلپ ہو رہا تھا عادلہ نے ہنس کر شعر پڑھا تھا۔

”تم سے پوچھ لوں گی کسی دن  سارا بدلہ چکا دوں گی  ابھی تو مجھے راحیل سے ملنے کی خوشی میں کچھ برا نہیں لگ رہا ہے۔“ خلاف مزاج وہ مسکرا کر گویا ہوئی تھی وہ بہت خوش اور مطمئن لگ رہی تھی اس کی بدمزاجی اور چڑچڑا پن غائب تھا۔

”تم کتنی اچھی لگتی ہو مسکراتی ہوئی عائزہ! مسکراتی رہا کرو نا۔“ وہ سیڑھیاں عبور کرکے سیکنڈ فلور پر پہنچ گئی تھیں۔

”راحیل اور میں ایک ہو جائیں گے تم دیکھنا میں سوتے میں بھی مسکراتی رہوں گی۔“ وہ آگے بڑھ کر کال بیل پش کرتی ہوئی بولی۔

###

فیاض صاحب خلاف توقع آج گھر سرشام ہی آ گئے تھے اور حسب عادت وہ پہلے اماں کو سلام کرنے ان کے کمرے میں گئے تھے اور سلام کرکے ان کے قدموں میں ہی بیٹھ گئے تھے۔

”آج تو جلدی گھر لوٹ آئے ہو بیٹا! بہت اچھا لگ رہا ہے تمہیں شام کی روشنی میں دیکھنا۔“ وہ شفقت بھرے لہجے میں بولیں۔

”آج عابدی کے ہاں ڈنر پارٹی ہے انہوں نے اتنا اصرار کیا کہ ضرور آنا بلکہ پوری فیملی سمیت شرکت کرنی ہے۔ عابدی کے اتنے احسانات ہیں مجھ پر اماں جان  میں انہیں ناں نہیں کہہ سکا۔“

”ہاں ہاں ضرور جاؤ بیٹا! وہ تمہارا جگری دوست بھی ہے پارٹنر بھی ہے  پھر کوئی اتنے خلوص و مروت سے دعوت دے تو قبول کرنا بھی چاہئے۔
“ انہوں نے مسکراتے ہوئے انہیں سمجھایا تھا۔

”پاپا! چائے لاؤں آپ کیلئے؟“ اماں کی وارڈ روب درست کرتی ہوئی پری ان سے مخاطب ہوئی تھی۔

”نہیں  میں آفس سے چائے پی کر آیا ہوں۔“ وہ اس کی جانب دیکھتے ہوئے گویا ہوئے تھے وہ ان کو بہت رنجیدہ اور کمزور لگ رہی تھی۔ ان کا شدت سے دل چاہا اس سے پوچھیں  اسے کیا ہوا ہے؟ وہ اتنی کمزور اور افسردہ کیوں دکھائی دے رہی ہے؟ مگر پھر وہ ہی ایک خلیج… بچپن سے قائم ہوا ایک حجاب مانع تھا۔
مثنیٰ سے علیحدگی کے بعد ان کے بدلتے جذبات نے ان کو اس حد تک بدلا تھا کہ وہ اس پری سے بھی اس حد تک نفرت کرنے لگے تھے کہ اس کی جانب دیکھنا بھی پسند نہ کیا تھا۔ اپنی جان سے بڑھ کر چاہنے والی بچی کو وہ فراموش کر بیٹھے تھے۔ سالوں تک ان کی محبت پر برف پڑی رہی تھی اور گلیشیئر کا روپ دھار چکی تھی۔ مگر موسم بدلا تھا اور برف پگھلنے لگی تھی لیکن اس دوران ان باپ بیٹی کے درمیان فاصلہ بے حد وسیع ہو گیا تھا  جس کو عبور کرنے کیلئے ایک جست کافی نہ تھی۔

”اماں جان! آپ کو بھی چلنا ہوگا ہمارے ساتھ  پری آپ بھی تیار ہو جائیں  میں مذنہ بھابی اور صباحت کو بھی کہہ دیتا ہوں  صباحت اور بچیاں بھی چلیں گی۔“ وہ کھڑے ہو کر گویا ہوئے۔

”میری تو ہمت بالکل بھی نہیں ہے بیٹا! ہاں تم صباحت اور بچیوں کے ساتھ پری کو بھی لے جاؤ  مذنہ اور طغرل تو کسی عزیز کے ہاں گئے ہوئے ہیں۔“ اماں کے انداز میں قطیعت تھی ایسے میں کسی کی نہیں سنتی تھی وہ ان کے مزاج سے آشنا تھے سو پھر اصرار نہ کیا تھا پری سے بولے۔

”آپ ریڈی ہو جائیں ہمیں جلدی جانا ہے۔“

”پاپا! دادی جان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے میں…“

”خیر اب ایسی بھی میری حالت نہیں ہے کہ تم جاؤ نہیں  پہلی بار تمہارے باپ کو تمہارا خیال آیا ہے  آج تو تمہیں خوش ہونا چاہئے  جاؤ تم یہ میرا حکم ہے بس۔“

اماں کی کھری بات پر نگاہ نہ اٹھا سکے تھے فقط آہستگی سے بولے۔

”میں جلدی آپ کو گھر بھیج دوں گا آپ ریڈی ہو جائیں۔
“ وہ اماں سے اجازت لے کر اپنے کمرے میں آ گئے تھے  صباحت بال برش کر رہی تھیں  فیاض کو دیکھ کر مسکرا کر بولیں۔

”مجھے معلوم تھا آپ آج جلدی آئیں گے مسز عابدی کا فون آیا تھا ڈنر پر انوائٹ کیا ہے بہت اصرار کر رہی تھیں کہہ رہی تھیں پوری فیملی کو لے آئیں۔“ وہ خاصی مسرور تھیں۔

”پھر تم نے کیا کہا ان سے؟“ وہ ایزی ہو کر لیٹ گئے۔

”جان چھڑانے کیلئے ہامی بھر لی میں نے  بہت پکاؤ عورت ہے اگر میں کہہ دیتی بچیاں گھر میں نہیں ہیں  مذنہ بھابی اور طغرل بھی ایک پارٹی میں مدعو ہیں  اماں جان کے جوڑوں میں درد ہے  وہ تو آج کل بستر کی ہو کر رہ گئی ہیں اب کس کو لاؤں بھلا ساتھ؟ ہم دونوں مسٹر اینڈ مسز ہی آ سکتے ہیں۔“

”عائزہ اور عادلہ کہاں ہیں؟“

”وہ اپنی فرینڈز کی برتھ ڈے پارٹی میں گئی ہیں۔

”تمہیں معلوم ہے کس فرینڈ کے ہاں اور کہاں گئی ہیں؟ اور تم ملی ہو کبھی ان سے؟ گئی ہو وہاں…؟“ ان کا لہجہ بہت سخت اور باز پرس کرنے والا تھا  صباحت چند سیکنڈز تو ہکا بکا سی رہ گئی تھیں کہ ان کو کچھ علم نہ تھا وہ کہاں اور کس فرینڈ کے گھر گئی ہیں۔ وہ بیٹیوں کی باتوں پر آنکھیں بند کرکے یقین کرنے والی خاتون تھیں  سو اب بھی ایسا ہی ہوا تھا۔

”گاڑی پورٹیکو میں کھڑی ہے  ڈرائیور بھی موجود ہے وہ کس کے ساتھ گئی ہیں؟“ وہ سوال در سوال کر رہے تھے۔

”آپ خود ہی سوچئے میں بھلا جوان بیٹیوں کو آنکھیں بند کرکے کہیں بھیج دوں گی  جب سے بچیاں بڑی ہوئی ہیں ہر وقت آنکھیں کھلی رکھتی ہوں۔“ بہت سرعت سے انہوں نے خود پر قابو پایا تھا۔

”تمہاری آنکھیں تو صرف مجھے سوتے ہی میں ہی کھلی نظر آتی ہیں۔

”آپ مذاق اڑا رہے ہیں میرا؟“

وہ ان کے قریب بیٹھتے ہوئے خفیف مسکراہٹ سے بولیں۔

”وہ تو کمزوری سے کھلی رہ جاتی ہیں جان کر تھوڑی کھولتی ہوں۔“

”چلو تمہاری کمزوری سے یہ فائدہ ہوگا کہ کبھی گھر میں چور گھس گئے تو سمجھیں گے تم جاگ رہی ہو تو بھاگ جائیں گے۔“ ان کے شگفتہ انداز میں بھی بلا کی سنجیدگی تھی۔

”توبہ! کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ ہمارے ہاں چور کیوں آنے لگے اور اگر کبھی خدا نخواستہ آ بھی گئے تو خالی ہاتھ بھاگیں گے  آپ کے خراٹے کسی شیر کی دہاڑ سے کم نہیں ہوتے ہیں۔

###

بار بار بیل دینے کے بعد بھی اندر سے کوئی جواب نہ آیا تھا۔

”عائزہ! شاید کوئی اندر ہے ہی نہیں  ہمیں واپس چلنا چاہئے۔“ عادلہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر بولی تھی۔

”یہاں آنے سے پہلے کال کی تھی  میں نے اس کو کہہ دیا تھا وہ میرا انتظار کر رہا ہے میں جلد پہنچوں۔“

”اگر وہ انتظار کر رہا تھا تو کم از کم ہمیں یہیں مل جاتا۔

”ٹھیک کہہ رہی ہو تم  اگر وہ ہمارے لئے کوکنگ نہ کر رہا ہوتا تو ضرور ہمیں باہر روڈ سے ہی پک کرتا۔“

”کوکنگ؟“ وہ عائزہ کو دیکھ کر حیرانگی سے بڑبڑائی۔

”ہاں کوکنگ  وہ کہہ رہا تھا وہ بیسٹ کُک ہے۔“

”اسی دم اندر سے کسی کے غصے سے بڑبڑانے کی آواز آئی اور زور دار انداز میں دروازہ کھولا گیا آنے والے کا انداز بڑا جارحانہ تھا  اس کے ہونٹوں سے مغلظات رواں ہونے والے تھے۔
ان پر نگاہ پڑتے ہی وہ پل بھر میں غصے بھول کر مسکرانے لگا۔

”ہائے! ہم کب سے بیل بجا رہے ہیں۔“ عائزہ بے تکلفی سے اندر داخل ہو گئی تھی۔ عادلہ تذبذب کا شکار وہیں دہلیز پر کھڑی تھی۔ راحیل کا حلیہ بہت عجیب تھا  ہاف چیک ٹراؤزر کے ساتھ اس نے وائٹ بنیان پہن رکھا تھا  آنکھیں اس کی بے تحاشا سرخ ہو رہی تھیں  نامعلوم وہ نیند میں تھا یا نشے میں۔

”آپ کو کیا اٹھا کر لے جانا پڑے گا اندر؟“

وہ اسے وہیں ایستادہ دیکھ کر بے باکی سے بولا تھا اور اس کے قریب کھڑی عائزہ اس کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنس پڑی اور کہنے لگی۔

”پلیز آ بھی جاؤ نا  کیوں چپک کر کھڑی ہو گئی ہو وہاں پر  آؤ نا۔“ اس کا ہاتھ پکڑ کر وہ اندر آئی۔ کمرے میں قدم رکھتے ہی لائٹ چلی گئی اور اسے لگا آنکھیں میں سے بینائی بھی چلی گئی ہو  مہیب اندھیرا ہر سو چھا گیا تھا۔

”یہ کہاں آ گئی ہو عائزہ! واپس چلو میرا دل گھبرا رہا ہے۔“ اس نے سرگوشی کی تھی  عائزہ نے اسے چپ رہنے کیلئے ٹھوکا مارا تھا۔

”بھئی! کیا قدم ہیں آپ کے تاریکی ساتھ لائی ہیں۔“ وہ ایک کینڈل جلا کر لایا تھا اور قریب رکھے اسٹینڈ پر رکھ دی۔

اس مہیب اندھیرے کمرے میں روشنی کی وہ معمولی سی مقدار ماحول کو وحشت ناک بنا رہی تھی۔

وہ عائزہ کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔ کمرے میں سامان بے حد مختصر تھا  ایک صوفہ سیٹ  سامنے سنگل بیڈ تھا جس پر رضائی اور تکیہ بے ترتیب پڑے تھے  بیڈ کے برابر میں ایک الماری تھی جس کا آدھا شیشہ ٹوٹا ہوا تھا اور جو باقی تھا وہ زنگ آلود اور کرچیوں کی صورت میں جما ہوا تھا۔

”ایک کینڈل لائے ہو اتنے اندھیرے میں؟“ عائزہ نے کہا۔

”تمہارے ہوتے ہوئے ایک بھی کینڈل کی ضرورت نہ تھی  تمہارے حسن کی روشنی سے کمرہ جگمگ کر رہا ہے۔

وہ اپنی باتوں کے جادو سے لڑکیوں کو شیشے میں اتارتا تھا۔

”یہ پھر یہ ایک بھی کیوں لائے ہو  میرے حسن کی توہین کرنے کیلئے؟“ وہ یہ تو گویا بھول ہی گئی تھی کہ عادلہ اس کے ساتھ ہے  وہ مخمور نگاہوں سے راحیل کو دیکھ رہی تھی۔

”یہ کینڈل ہماری گیسٹ کو ویلکم کیلئے ہے۔“ اس کی نگاہیں گاہے بگاہے عادلہ پر اٹھ رہی تھیں جو چپ تھی۔

”ہوں  پھر معاف کیا یہ بتاؤ کیا کیا بنایا ہے ہمارے لئے؟“

”سوری یار! مجھے نیند آ رہی تھی میں سو گیا تھا۔“

”وہاٹ!“ عائزہ ایک دم غصے سے بولی تھی۔

”تم… سو رہے تھے؟ میں سمجھی تم ڈشز بنا رہے ہو  ہمارے لئے؟“

”ایزی ایزی میری جان! ہائپر مت ہو  میں ابھی کال کرکے کسی بھی بہترین ریسٹورنٹ پر آرڈر کر دیتا ہوں  کیا کھانا ہے مینیو بتاؤ؟“

”تم تو کہہ رہے تھے خود بنا رہے ہو ہمارے لئے؟“

”میں سمجھا تم کہاں آؤں گی یار! تمہارا وہ ہٹلر کزن نہیں آنے دے گا۔

”اوہ تو یہ بات ہے۔“ وہ لمحے میں غصہ بھول گئی۔

”بائی دا وے تم لوگ اس سے بچ کر کس طرح آ گئے؟“

”ہم تو بچ کر آ گئے مگر اب وہ نہیں بچنا چاہئے۔“ وہ سخت لہجے میں گویا ہوئی تھی۔

”عائزہ! تم تو کہہ رہی تھی کوئی دوسرا راستہ نکالو گی پھر یہ…“

”یہ دوسرا راستہ تو ہے جو موت کی طرف جاتا ہے ہا ہا ہا۔“

   1
0 Comments